Orhan

Add To collaction

پچھتاوائے انتقام

پچھتاوائے انتقام از نشال عزیز قسط نمبر14

تیمور جو اسکی تڑپتی آواز پر خود پر اور قابو نہ رکھ پایا تھا،جھٹکے سے کار کو ریورس کرتے ہوئے واپس یہاں پر آیا،ابھی وہ یمنا کے قریب ہی آرہا تھا کہ وہ چکرانے لگی،پر اسکے گرنے سے پہلے ہی تیمور نے یمنا کو بازو سے تھام لیا،تیمور نے حیرت سے اسکے زرد چہرے کو دیکھا پھر وقت ضائع نہ کرتے ہوئے اسے گود میں اٹھاتا ہوا اپنی کار تک لایا،فرنٹ سیٹ پر بِٹھاکر اس نے ایک نظر یمنا کو دیکھا۔ "یمنا۔۔۔" اسکا گال تھپتھپاتے ہوئے تیمور نے پکارا لیکن وہ یونہی پڑی رہی تو جلدی سے تیمور اپنی طرف آکر گیٹ کھولتے ہوئے بیٹھا پھر ڈیش بورڈ سے پانی کی بوتل اٹھاکر اس نے چند چھینٹے یمنا کے چہرے پر مارے،جس سے وہ آنکھیں میچتے ہوئے اپنا چہرہ موڑ گئی،اسے ہوش میں آتا دیکھ تیمور کی جان میں جان آئی تھی،خود کو کار میں دیکھ یمنا نے حیرت سے گردن موڑی مگر تیمور پر نظر پڑتے ہی اسکے تاثرات تنے تھے۔ "تم ٹھیک ہو؟" ابھی وہ اسے کچھ بولتی پر تیمور کے لہجے میں اپنے لیے فکر محسوس کرکے بےساختہ نگاہ پھیر گئی، "تیمور۔۔۔پلیز یقین کرو نتاشہ بےقصور ہے۔۔۔۔وہ معصوم ہے تم کچھ کرو نا۔۔۔تم چھڑوالو اسے ان لوگوں کی قید سے۔۔" اسکے سوال کو ان سنا کیے یمنا نے وہی بات دہرائی جو وہ پہلے بول رہی تھی،چند پل تیمور نے خاموشی اختیار کی "تم مجھے صرف ایک ثبوت دے دو اسکی بےگناہی کا۔۔۔۔اسکے بعد میں وعدہ کرتا ہوں کہ نتاشہ کو خود بری کروا دونگا۔۔۔" تیمور کی اس بات پر یمنا نے بےبسی سے اسے دیکھا،آخر کیا ثبوت دیتی اسے کہ وہ خود ہی اصل گنہگار ہے، "سر اسے تب تک نہیں چھوڑیں گے جب تک وہ پاسورڈ نہیں بتادیتی۔۔۔" اسکے خاموشی سے لب کاٹنے پر تیمور نے کہا،یمنا نے جھٹکے سے اسکی طرف دیکھا،تو کیا وہ اسی لاکر کے پاسورڈ کی بات کررہا تھا، "کیسا پاسورڈ؟" اپنی گھبراہٹ کو چھپاتے ہوئے وہ پوچھی "اب کیا سب بتادوں تمہیں؟" اسے تجسس میں دیکھ تیمور نے مسکراکر کہا "چلو تمہیں گھر چھوڑدوں۔۔۔تمہاری طبیعت ویسے بھی ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔" موضوع بدلتے ہوئے اس نے پھر کہا اور کار سٹارٹ کی "کوئی ضرورت نہیں ہے اتنی ہمدردی کی۔۔۔ایسے انسان کی کار میں جانا میرے لیے گناہ کے برابر ہے جس انسان کی قید میں میری دوست ہے۔۔۔۔" بمشکل اپنی آواز میں نمی روکتے ہوئے یمنا نے اسے دیکھ کر کہا،آنکھیں پھر بھیگنے لگی تھیں جبکہ تیمور نے اسکی بات پر گہرا سانس بھرا تھا،ابھی وہ کچھ اور بولتا کہ یمنا جھٹکے سے کار کا گیٹ کھولتے ہوئے نکلی اور وہاں سے سیدھا اپنی کار کی طرف جانے لگی۔ تیمور نے کار کی سیٹ سے سر ٹکائے اسے کار میں بیٹھتا دیکھا،کیسے سمجھاتا یمنا کو کہ اسکے بس میں ہوتا تو اب تک چھوڑ چکا ہوتا وہ نتاشہ کو،پر سب گیم تو اصل اسکے سر "زبرین افتخار" کے ہاتھ میں تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آدھی رات کو ٹورچر سیل کی سبھی لائٹس آف تھیں اور وہ یونہی چئیر سے بندھی ماضی کی سوچوں کے محور میں گم تھی،کتنی خوش رہنے والی لڑکی تھی وہ،باپ کے پرسکون سائے اور ایک دوست کی محبت میں جینے والی اس خوشحال لڑکی کی زندگی میں ادیان نیازی ایک انجان شخص بن کر آیا تھا،شروع میں اس سے ارریٹیٹ ہوتے ہوئے اسے نہیں معلوم تھا کہ ایک دن وہی آدمی کس قدر عزیز ہو جائے گا اسکے لیے،اس سے شادی کے بعد تو وہ ہواؤں میں اڑنے لگی تھی،ایسا شوہر جس کے لیے لڑکیاں رشک کرتی ہیں وہ اسکے نصیب میں تھا،یہ سوچ ہی تو اسکے لیے باعثِ فخر تھی پر اب،اب وہی انسان ایسا شوہر ثابت ہوا تھا جس کا سوچ کر ہی لڑکیاں کانپتیں،ادیان کی بےوفائی پر وہ تڑپی تو بہت تھی پر چاہ کر بھی اس سے نفرت نہ کرسکی،پتانہیں کیوں کوشش کے باوجود وہ اس سے نفرت نہیں کرپارہی تھی اور وجہ یہی تھی،اسکا صاف شفاف دل جو کہ ایسے شیشے کے مانند تھا جس میں صرف ایک ہی انسان کا عکس دکھتا تھا اور وہ انسان وہی بےوفا اور ظالم سیاد تھا جسے اسکے تڑپنے سے زرا فرق نہیں پڑتا تھا،اپنی سوچوں کا محور اسے کسی کے قدموں کی چاپ پر ٹوٹتا محسوس ہوا تھا،نتاشہ چونکی تھی نیم اندھیرے میں اپنے سامنے کسی کا سایہ دیکھ، "کککو۔۔۔" "ششش۔۔۔" ابھی وہ کچھ پوچھتی کے مقابل نے تھوڑا جھکتے ہوئے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا پھر ایک نظر ہر طرف دوڑاتے ہوئے وہ نتاشہ کے پیچھے آیا تھا،نتاشہ چپ چاپ حیرت سے اس اجنبی کی کاروائی دیکھ رہی تھی جو اب پیچھے تھوڑا جھک کر اسکی رسیاں کاٹ رہا تھا،رسیاں کاٹنے کے بعد وہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا پھر نتاشہ کے سامنے آیا اور اب گھٹنوں کے بل بیٹھا اسکے ہاتھوں کو مقید کی ہوئی ہتھکڑیوں کو کسی باریک چیز سے کھولنے لگا، "کون ہیں آپ۔۔۔کیا کررہے ہیں یہ؟" اب کے اس سے صبر نہ ہوا تو ہلکی آواز میں پوچھ بیٹھی،جس پر مقابل کے ہتھکڑیاں کھولتے ہاتھ کچھ پل کے لیے رکے،سرخ نظریں اٹھی تھیں اور سیدھا ہیزل رنگ آنکھوں سے ٹکرائیں،ان خوبصورت آنکھوں کا یہ حشر دیکھ مقابل کے دل میں درد کی شدت بھری ٹیس اٹھی تھی،ان کے سحر میں ڈوبنے سے پہلے ہی وہ دوسرے ہی لمحے جھکا اور تیزی سے اسکی ہتھکڑیاں کھولنے لگا،اسکے ہاتھ آزاد کرتے ہی وہ کھڑا ہوا تھا۔ "چلو یہاں سے۔۔۔" نتاشہ کو بول کر اس نے پھر ایک نظر گیٹ کی طرف دیکھا پھر کسی کو نہ پاکر مطمئن ہوتے ہوئے واپس نتاشہ کو دیکھا جو آزاد ہونے کے باوجود چئیر پر بیٹھی اسے ناسمجھی سے دیکھ رہی تھی۔ "چلو۔۔۔" اب کے اس نے آواز تھوڑی بلند کی "پہلے آپ بتائیں۔۔۔کون ہیں آپ؟" اپنی ضد دکھاتے ہوئے وہ یونہی بیٹھی اس سے وہی سوال کرنے لگی "ابھی یہ بتانے کا وقت نہیں ہے۔۔۔۔فلحال چلو یہاں سے۔۔اس سے پہلے کوئی دیکھ لے۔۔۔" نتاشہ کی ڈھٹائی پر وہ تپا تھا پھر لہجے کو سنجیدگی میں گھول کر بولا "مجھے نہیں جانا۔۔۔۔یہاں پر کم سے کم میں ادیان کو تو دیکھ لیتی ہوں۔۔۔۔اگر میں گئی تو انہیں لگے گا کہ میں سچ میں جھوٹی اور مکار ہوں جبکہ میں انہیں ثابت کرونگی کہ میں ویسی نہیں ہوں جیسا وہ مجھے سمجھتے ہیں۔۔۔" اپنی بات بولتے ہوئے وہ گالوں پر مسلسل پھسلتے آنسوؤں کو پونچھ رہی تھی،دوسری طرف مقابل حیرت سے اس دیوانی کو دیکھنے لگا جو اس ظالم کی بےوفائی اور اذیتوں کے باوجود اسی کی قید میں رہنے کو بضد تھی۔ "کیا تمہیں اپنے باپ سے نہیں ملنا؟" کچھ سوچتے ہوئے اس نے مہرہ چنا،جس پر نتاشہ چونکی "وہ یاد کرتے ہیں تمہیں۔۔۔تمہارے اغواء ہونے کے بعد سے کافی بیمار رہنے لگے ہیں۔۔۔" اسکا رئیکشن دیکھ مقابل نے اور پتے پھینکے پھر نتاشہ کے تاثرات دیکھنے لگا جو اب رونے والے ہوئے تھے "کیا۔۔۔پاپا کی طبعیت خراب ہے؟" نتاشہ نے بےقراری سے پوچھا تو اس نے ہلکے سے اثبات میں سر ہلایا "انہوں نے ہی بھیجا ہے تمہیں لانے۔۔۔۔اب تو چلو۔۔۔" اسکے سوچ میں پڑے دیکھ مقابل نے پھر کہا تو نتاشہ اسے دیکھتے ہوئے جلدی سے اثبات میں سر ہلاکر اٹھی،باپ کی طبیعت خرابی کا سن کر اسے ڈھیروں پریشانی نے آلیا،جلدی سے اٹھ کر وہ اسکے ہمقدم چلنے لگی مگر تبھی لڑکھڑاکر نیچے گری،مقابل نے پلٹ کر اسے دیکھا،پیروں پر آبلے بننے کی وجہ سے جلن پھر تازہ ہوئی، نتاشہ کو تکلیف سے لب بھینچے دیکھ وہ جھکا تھا اسے اٹھانے کے غرض پر تبھی وہ سِرک کر پیچھے ہوئی۔ "می۔۔۔میں۔۔۔چل سکتی ہوں۔۔" نظریں جھکائے نتاشہ نے کہا ساتھ ہی بمشکل اٹھی اور اسکے ساتھ لڑکھڑا کر چلنے لگی،ٹورچر سیل سے نکل کر اس نے چاروں طرف دیکھا،اندھیرا ہونے کے ساتھ ساتھ ہر طرف خاموشی چھائی تھی،وہاں کسی کو نہ پاکر وہ نتاشہ کو لیے آہستگی سے اس عمارت سے باہر نکلنے لگا پر مین گیٹ پر گارڈز کو دیکھتے ہی ایک قدم پیچھے ہوا،اس نے ایک نظر نتاشہ کو دیکھا جو پیروں پر ہوتی تکلیف کے باعث بمشکل کھڑی تھی،پھر کچھ سوچ کر پیچھے کے راستے پر آیا،یہاں مین گیٹ کے مترادف کم گارڈز تھے،باہر گھپ اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے نتاشہ کو جھکنے کا اشارہ کیا پھر ایک نظر گارڈز کو دیکھ کر اپنے برابر میں رکھی ایک چئیر پر زور دار ٹھوکر ماری،اچانک ایک گارڈ اس سمت متوجہ ہوا جہاں سے آواز آئی،اسے اپنی طرف آتا دیکھ وہ نتاشہ کو لیے پلر کے پیچھے چھپا،پھر چھپ کر ایک نظر اس گارڈ کو دیکھا وہ اب تک چئیر کے آس پاس ٹورچ کی دھیمی روشنی سے دیکھ رہا تھا،اسکا دھیان بٹتے دیکھ وہ نتاشہ کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے اس گارڈ کے پیچھے سے ہوتے ہوئے بنا چاپ کے بھاگا تھا،وہ گارڈ تو انہیں جاتا ہوا نہ دیکھ پایا پر دو ایکسرے کرتی تیز آنکھوں نے خون آلود نظروں سے نتاشہ کا ہاتھ اسکے ہاتھوں میں دیکھا تھا۔ نتاشہ کو کار میں بٹھاتے ہی وہ دوسری طرف آکر خود بیٹھا،اب اسکا چہرہ دیکھ کر نتاشہ ٹھٹھکی تھی،وہ حیرت کی مورت بنے اس شخص کو دیکھنے لگی جسے ادیان نے کچھ مہینے پہلے ریسٹورنٹ میں نتاشہ کو دکھا کر بتایا تھا کہ وہ اسکا دوست ہے۔ زین جو بیٹھتے ہی کار سٹارٹ کر کے وہاں سے تھوڑا دور آچکا تھا اب نتاشہ کو مسلسل خود کو دیکھتا پاکر آئبرو اچکائی "آپ تو۔۔" "زبرین کا دوست۔۔۔" اسکی بات کاٹتے ہوئے زین نے کہا تو نتاشہ الجھی "آپ میری مدد کیوں کررہے ہیں؟" نتاشہ کا الجھا ہوا لہجہ محسوس کر کے زین نے کار روکی پھر چند پل اسے دیکھتا رہا "میں آپ سے کچھ پوچھ رہی ہوں۔۔۔" اسے بناپلک جھپکائے خود کو دیکھتا پاکر نتاشہ کنفیوز ہوتے ہوئے بولی،پر زین اب سوچنے لگا کہ کیا بتائے اس بےخبر لڑکی کو کہ وہ کس قدر چاہتا ہے اسے،اسکو تکلیف میں دیکھ کر ہی تو وہ اپنے دوست سے بغاوت کررہا تھا۔ "میں نے یہ کیوں کیا یہ اگر تمہیں۔۔۔۔۔" زین کی بات ادھوری رہ گئی جب اسکی کار کا سائیڈ مرر چھناکے سے ٹوٹا تھا،اسکے کچھ سمجھنے سے پہلے ہی کوئی چھوٹی سی لوہے کی چیز ہوا کی تیزی سے آکر اسکے کندھے میں پیوست ہوئی،تکلیف کے باعث بےساختہ وہ سختی سے لب بھینچ گیا،جبکہ نتاشہ آنکھیں پھاڑے اسے ایک ہاتھ کندھے پر رکھے سٹئیرنگ پر فوراً سر ٹکائے دیکھنے لگی،زین کے بازو پر گولی لگنے سے وہ بری طرح ڈری تھی،پر اچانک کسی نے اسکی طرف کا گیٹ کھول کر نتاشہ کو بازو سے دبوچتے ہوئے جھٹکے سے باہر نکالا،خوف سے اسکے منہ سے چیخ نکلتی کہ مقابل اسکے لبوں پر اپنا بھاری ہاتھ مضبوطی سے رکھے نتاشہ کی چیخ دباگیا۔ "مجھ سے دھوکہ دہی نہیں کرنی چاہیے تھی ڈارلنگ۔۔۔" زبرین کی برف کے مانند سرد سرگوشی نتاشہ کا خون جماگئی،وہ کانپ کے رہ گئی اسکی سخت گرفت میں،تبھی وہ نتاشہ کو جھٹکے سے چھوڑ کر دور کرتا ہوا،کار کے نیچے ہوئے شیشے سے اندر جھانکا،جہاں زین اب تک کندھے پر ہاتھ جمائے سختی سے آنکھیں میچے خود پر قابو کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ "تھینک یو سو مچ۔۔۔۔اپنی اصلیت دکھانے کے لیے(گالی)۔۔۔" اسکو دیکھتے ہوئے زبرین دانت کچکچاکر غرایا پھر زین کو یونہی سٹئیرنگ سے سر ٹکائے چھوڑ کر وہ نتاشہ کی طرف آیا جو اسے دیکھ کر اب تک تھرتھراہٹ کا شکار تھی،اسکا بازو سختی سے دبوچ کر وہ تیز قدم اٹھاتا ہوا اپنی کار تک آیا،اسکے گھسیٹنے پر نتاشہ کے پیر پر پڑے آبلے چھلے تھے پر زبرین کا ڈر دماغ میں اس قدر حاوی تھا کہ وہ کراہ بھی نہ سکی،اس نے پٹخنے کے انداز میں نتاشہ کو کار میں بٹھاکر گیٹ دھاڑ سے بند کیا کہ نتاشہ کا دل اچھل کر حلق پر آیا،اپنی پسٹل پینٹ کی پچھلی جیب میں رکھتے ہوئے وہ کار میں بیٹھا تھا اور زن سے کار وہاں سے بھگا لے گیا۔ اسکے جانے کے بعد زین نے سر سٹئیرنگ سے اٹھایا تھا،پھر تکلیف دہ نظروں سے زبرین کی دور جاتی کار کو دیکھنے لگا،کندھے پر گولی لگتے ہی وہ سمجھ گیا تھا کہ مقابل اسی کا دوست تھا جس نے زین کی بغاوت پر اس سے ناراضگی کا یوں اظہار کیا تھا،شرمندگی کے باعث اس سے نظر نہ ملانے کے چکر میں وہ سر سٹئیرنگ سے ٹکا گیا تھا،پر اب وہ زبرین کے کہے گئے الفاظوں پر ندامت سے آنکھیں میچ گیا،تبھی اسکا فون رنگ کرنے لگا،کندھے پر بُلِٹ اب تک پیوست تھی،اپنی تکلیف کو نظرانداز کرتے ہوئے اس نے کال ریسیو کی۔ "کیا ہے۔۔۔" نمبر دیکھ کر اس نے جھنجھلا کر لٹھ مار لہجے میں کہا، "آج رات کی ڈیوٹی تھی تمہاری۔۔۔۔بھول گئے۔۔۔" دوسری جانب طاہر علوی کی فیکٹری سے اسی آدمی نے سنجیدگی سے کہا "آج کی ڈیوٹی کسی اور کو دے دو۔۔۔" کندھے سے تیزی سے نکلتا خون اسکی سفید شرٹ رنگین کرگیا،تبھی وہ آئبرو بھنچے بولا "یہاں پر کوئی کسی کی ڈیوٹی نہیں کرتا۔۔۔۔پندرہ منٹ میں پہنچو فوراً۔۔۔" اب اس آدمی کا لہجہ بدلا تھا "آرہا ہوں۔۔۔" غصے میں کہتے ساتھ اس نے کال کاٹتے ہوئے فون ڈیش بورڈ پر پٹخا پھر بایاں ہاتھ سختی سے دائیں ہاتھ کے کندھے پر جمائے زخمی ہاتھ سے کار سٹارٹ کی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس عمارت پر پہنچتے ہی وہ کھینچتے ہوئے نتاشہ کو کار سے نکالے اندر کی طرف پیچھے کے راستے سے ہی لے جانے لگا،مقصد نتاشہ کو کچھ دکھانے کا تھا،اور جو منظر نتاشہ نے اندر جاتے ہوئے دیکھا وہ لرز کے رہ گئی،پیچھلے حصے پر متعین گارڈز کے بےجان وجود نیچے پڑے تھے اور انکی جگہ دوسرے گارڈز وہاں کھڑے تھے،تو کیا وہ انہیں مارچکا تھا،یہ سوچ نتاشہ کو جھرجھری لینے پر مجبور کرگئی،اسے ایک خفیہ کمرے میں لاکر زبرین نے جھٹکے سے چھوڑا کہ نتاشہ لڑکھڑاکر نیچے گری،پیروں پر ہوتی جلن بڑھی تھی ساتھ ہی ٹھنڈے ماربل پر گرنے سے بازو میں چوٹ لگی،وہ کراہ کے رہ گئی۔ دوسری طرف زبرین روم کا دروازہ لاک کرتے ہوئے پلٹا تھا،پھر اپنا کوٹ اتار کر زور سے زمین پر پھینکا،ساتھ ہی اندر پہنی شرٹ کے اوپری بٹنز کھولتے ہوئے اسکے قریب آکر گھٹنوں کے بل جھکا پھر خاموشی سے اسے دیکھنے لگا جو زرد رنگت لیے زبرین کے وجیہہ چہرے پر چٹانوں جیسے سخت تاثرات دیکھ لرزتے ہوئے پیچھے سرک رہی تھی۔ "تو۔۔۔بھاگنے کا ارادہ تھا میری جان کا۔۔۔" اسکے چہرے کے بلکل نزدیک اپنا چہرہ کرتے ہوئے زبرین نے پوچھا،تاثرات کے برعکس اسکا لہجہ نہایت نرم تھا،نتاشہ نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا "اد۔۔۔ادیان نہیں۔۔۔وہ پاپا کی۔۔۔" اسکے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے جب زبرین اس پر اور جھکتے ہوئے نتاشہ کی سانس روک گیا،شدتِ ضبط سے وہ آنکھیں میچ گئی،اسکا یہ لمس کہیں سے بھی محبت لٹاتا نہیں تھا،بلکہ اپنے سخت اور جھلسادینے والے لمس سے وہ نتاشہ کو تکلیف دے رہا تھا،جب درد حد سے بڑھا تو نتاشہ اپنا زمین پر ٹکایا ایک ہاتھ ہٹاگئی جس سے وہ زبرین سمیت پِیٹ کے بل زمین پر گری تھی،کچھ دیر بعد اسکے لبوں کو چھوڑ کر زبرین نے دونوں ہاتھ زمین پر ٹکاتے ہوئے ایک نظر نتاشہ کو دیکھا جو آنکھیں موندے اپنی سانسیں ہموار کرنے کی کوشش کررہی تھی،منہ میں خون کا ذائقہ محسوس کرکے ابھی وہ آنکھیں کھولتی کہ اپنی گردن پر پھر وہی جھلسا ہوا لمس محسوس ہوا اسے،صراحی دار گردن پر ہوتی چبھن جب بڑھی تو وہ مچلنے لگی اس سیاد کی مضبوط گرفت میں،جبکہ وہ نتاشہ کی لگاتار مزاحمت کو نظرانداز کرتا ہوا اسکا رخ برابر کی جانب کرگیا،اپنی پشت پر قمیض پر لگی زپ کو اسکے ہاتھ سے کھلتا محسوس کرکے نتاشہ نے زبرین کے مضبوط بازوؤں پر ہاتھ رکھے اسے دور کرنا چاہا،اس پر مقابل کی گرفت اور سخت ہوئی تھی، "کہا تھا نا۔۔۔دھوکہ نہیں دینا چاہیے تھا۔۔۔" نتاشہ کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے وہ اسکی کان کی لُو کو اپنے دانتوں میں لے گیا "میں۔۔نے۔۔۔کوئی دھوکہ۔۔" وہ بھیگے کپکپاتے لہجے میں وضاحت دینے لگی پر کان کی لُو پر اسکے دانت کا دباؤ پڑتے ہی نتاشہ اپنا جملہ چھوڑ کر کراہی اسے تکلیف میں کراہتا دیکھ زبرین طنزیہ مسکراہٹ سمیت اپنا بھاری ہاتھ اسکے سرخ لبوں پر سختی سے جماگیا،وہ تڑپنے لگی تھی اسکے تکلیف دہ لمس پر،لیکن مقابل بھی ظالم سیاد تھا جسے اسکی تکلیف سے کوئی لینا دینا نہیں تھا،رات بھر اپنے ہر لمس سے اسنے نتاشہ کو تڑپایا،اس پر یہ ظاہر کیا کہ زبرین افتخار کو پھر کبھی دھوکہ دینے کی سزا "اُسے" کتنی دردناک دے سکتا تھا وہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیکٹری کے تہ خانے میں آنے سے پہلے ہی وہ ایک موٹا کپڑا اپنے کندھے سے لے کر شانوں تک سختی سے باندھ چکا تھا،تاکہ خون زیادہ نہ بہے،اب وہ تہ خانے میں سیڑھیاں طے کرتے ہوئے آیا تھا،کندھے میں درد کی ٹیسیں ہر لمحے بڑھ رہی تھی پر وہ لب ایک دوسرے میں پیوست کیے ضبط کررہا تھا،جس کمرے میں لڑکیاں قید تھیں اسی کے باہر بند گیٹ پر آکر وہ رکا،جہاں وہ آدمی پہلے سے ہی کھڑا تھا۔ "یہ کیا ہوا؟" اس آدمی نے زین کے کندھے پر بندھے کپڑے کو دیکھ کر کہا جو کہ خون سے رنگین ہوچکا تھا، "کام کیا ہے۔۔۔وہ بتاؤ۔۔۔" اسکا سوال اگنور کیے زین نے ناگوار لہجے میں پوچھا تو وہ ہنکارہ بھر کے رہ گیا پھر ایک چابی اسکی طرف بڑھائی "کرنا کیا ہے۔۔۔۔بس یہاں کی پہرہ داری کرو۔۔۔۔اور۔۔۔اگر چاہو تو کسی لڑکی کو۔۔۔" "میں نے سن لیا اب جاؤ یہاں سے۔۔۔" اسکے خباثت بھرے لہجے میں کہے جانے والا جملہ کاٹتے ہی زین نے لب بھینچے کہا ساتھ ہی اسکے ہاتھ سے چابی لی،جس پر وہ ہنسنے لگا پھر اسکے برابر سے ہوتا ہوا سیڑھیوں کی طرف گیا،اوپر جاتے ہی اس آدمی نے تختہ جگہ پر رکھا، زین نے ایک نظر سیڑھیوں کو دیکھا پھر گیٹ کے باہر رکھی چئیر پر بیٹھ گیا،درد کی وجہ سے وہ آنکھیں بار بار سختی سے بند کر کے کھول رہا تھا،ادھ کھلی آنکھوں سے اسنے نظر دوڑائی،وہاں اسکے علاوہ دو اور گارڈز تھے جنکے ہاتھوں میں اصلحہ تھا،اندر سے کچھ لڑکیوں کی رونے کی آوازیں اب تک آرہی تھی،جب اسکی حالت حد سے زیادہ خراب ہونے لگی تب وہ اٹھا تھا،پھر چابی لاک میں لگاتے ہوئے لاک کھولنے لگا،اور جھٹکے سے دروازہ کھولتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا،اسکے گیٹ کھولنے پر کئی لڑکیوں کی چیخیں یک بیک بلند ہوئی تھی،زین نے ایک نظر سب کو دیکھا،وہ سب خوف سے اسی کی طرف دیکھ رہی تھیں،تبھی زین کی نظر اسی لڑکی پر پڑی جو اس دن کی طرح ابھی بھی اسے لگاتار دیکھ رہی تھی۔ "تم۔۔۔۔ادھر آؤ۔۔۔" اس پر اپنی تیز نظریں جمائے زین نے کہا تو ازہا کانپ کے رہ گئی،وہ اسے ہی بلارہا تھا،اس کو تو وہ شخص سب سے الگ لگا تھا پر ابھی اسکا بلانا،وہ بےساختہ دوسری لڑکیوں کے پیچھے چھپنے لگی،جبکہ زین نے جبڑے بھنچے تھے اس کی حرکت پر،کندھے پر ہوتا درد زور پکڑنے لگا تھا، "ادھر آؤ۔۔۔" اب کے وہ زور سے دھاڑا تھا جس پر سبھی لڑکیاں خود کو بچانے کے چکر میں سائیڈ ہوئیں،ازہا خوف سے رونے لگی تھی اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ،قدم با قدم اسکے قریب آکر زین نے سختی سے اسکی کلائی پکڑی تھی،پھر کھینچتے ہوئے اسے وہاں سے لے جانے لگا،دور بیٹھی روِش نے بےبسی سے ازہا کو دیکھا جو روتے ہوئے اپنی کلائی زین کی مضبوط گرفت سے چھڑوانے کی ناکام کوششیں کررہی تھی، وہاں سے نکل کر زین نے چابی ایک گارڈ کی طرف اچھالی ساتھ ہی اسے گیٹ لاک کرنے کا اشارہ کیا،اس گارڈ کے دروازہ لاک کرتے ہی وہ اس سے چابی لے کر ازہا کی کلائی یونہی پکڑے تہ خانے میں بنے دوسرے کمرے کی طرف جانے لگا،ان گارڈز نے ایک نظر ان دونوں کو دیکھ ایک دوسرے کو خباثت سے ہنس کر دیکھا کمرے میں لاتے ہی اس نے ازہا کو جھٹکے سے چھوڑا اور گیٹ بند کیا،یہ ایک سادہ سا کمرہ تھا جس میں ایک لکڑی کی چوکی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا،ازہا کانپتی ہوئی پیچھے قدم کرنے لگی تھی،اسے ایک نظر دیکھ کر زین چوکی پر بیٹھا پھر کندھے سے کپڑا ہٹا کر شرٹ اتارنے لگا۔ "مجھ۔۔۔مجھے جانے دو۔۔۔پلیز۔۔میر۔۔میرے ساتھ کچھ مت کرنا۔۔۔" اسے شرٹ اتارتے دیکھ وہ ہچکیوں سے روتے ہوئے کپکپاتے لہجے میں بولی تو زین نے گردن موڑ کر ناگواری سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا جو بمشکل اسے سترہ اٹھارہ کی لگی۔ "یہاں پر آؤ۔۔۔" اسکی بات اگنور کیے زین نے سنجیدگی سے کہا پر وہ دیوار سے چپکے کھڑی رہی "اب اگر تم یہاں نہیں آئی تو میں وہاں آؤں گا۔۔۔پھر جو میں کروں گا اس پر روتے بھی رہوگی تو یہاں کوئی تمہاری سننے والا نہیں۔۔۔" اسکے ایک ہی جگہ ٹکے رہنے پر اب زین نے دانت پیس کر سخت لہجے میں کہا،اسکی بات پر ازہا بےبسی سے کمرے کے بند گیٹ کو دیکھنے لگی پھر لرزتے ہوئے چھوٹے قدم اٹھا کر اسکے پاس آئی،اسے بنا شرٹ کے دیکھ وہ زین سے چند قدم کے فاصلے پر رک کر نظریں جھکائے اپنی انگلیاں چٹخانے لگی تھی،نازک وجود ہچکیوں کے زد میں تھا،اسکی حرکت پر اب زین کا ضبط ٹوٹا تھا،تھوڑا سا آگے ہوکر اس نے ازہا کی نازک کلائی کو اپنی مضبوط گرفت میں لیا پھر جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچا،بےساختہ ازہا کے منہ سے نکلتی چیخ فضا میں بلند ہوئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments